|बच्चों को कैसे पाले |How to train children in childhood *🌹بچوں کی تربیت کیسے کریں؟🌹* *از قلم۔۔۔۔۔۔محمد اشرف رضا علیمی* *🌎 تیسری قسط🌎*

✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
      *🌹بچوں کی تربیت کیسے کریں؟🌹*

      *از قلم۔۔۔۔۔۔محمد اشرف رضا علیمی*


                 *🌎 تیسری قسط🌎*


             بلاشبہ بچوں کی صحیح تربیت کرنا انہیں لاکھوں کروڑوں کی دولت کا مالک بنا دینے سے بہتر ہے،کیونکہ تربیتی جوہر سے محروم شخص اپنے وراثتی مال و دولت کو ضائع کر سکتا ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی معاشرے میں غیر مہذب، بد اخلاق، اور غرور و تکبر کے حوالے سے پہچان بنا لیتا ہے جو اس کی اصل شخصیت پر بدنما داغ کی مانند اس کی آخری سانس تک باقی رہتا ہے......

اور یہ بھی سچ ہے کہ تربیتی صلاحیتوں سے مالامال شخص اپنی اچھی تربیت اور اچھے ہنر سے کروڑوں کا مالک بن سکتا ہے،اور اگر دولت مند نہ بھی بن سکا تو معاشرے میں عزت و وقار اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،اور لوگوں کے قلوب خاص طور پر اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ہر کوئی اس کا اثر و رسوخ قبول کرتا ہے۔

            اس لئے والدین کو بچوں کی تربیت سے ذرا بھی غافل نہیں ہونا چاہیے،اور جب بچہ شریعت کے دائرے میں رہ کر کچھ بننے یا کرنے کی خواہش ظاہر کرے تو اس کی عزت افزائی اور اس کی تکمیل کے لیے راستہ ہموار کرنا والدین کے لئے اہم ذمہ داری ہے...
 حدیث پاک میں ہے:
«أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ»
یعنی "اپنے اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور انہیں اچھا ادب سکھایا کرو...

 عزت افزائی بچے کے اندر بہت کچھ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کردیتی ہے، جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ اپنی ننھی سی عمر میں چلنے کی کوشش کرتا ہے بار بار گرتا ہے مگر ماں باپ کی عزت افزائی و حوصلہ افزائی سے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے پھر ایک دن وہ بھی آتا ہے جب بچہ اپنے قدموں سے چلنے لگتا ہے اور یوں ہی گھر والوں کی کوشش سے ابتدائی دو تین سالوں کے اندر بچہ اپنی ماں کی زبان بھی سیکھ لیتا ہے...

اس کے برعکس اگر کسی بچے کو انسانی ماحول سے دور جنگل و بیابان میں پرورش کے لئے جانوروں کے پاس چھوڑ دیا جائے تو وہ نہ تو اپنے قدموں سے چل سکے گا ، اور نہ ہی اسے کسی سے بات چیت کرنے پر قدرت حاصل ہوگی....

یہ فطرت کا اصول ہے کہ بچے کو جیسی تربیت اور ماحول فراہم کیا جائے گا وہ ویسا ہی بنے گا۔

 لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے معاشرے میں آپ کو ایسی سوچ وخیال رکھنے والے والدین بکثرت مل جائیں گے جو اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے بے فکر و بے نیاز رہتے ہیں، انہیں جب بچوں کے آداب و اخلاق، عادات و اطوار اور اچھے دینی ماحول میں تربیت  کے تعلق سے ترغیب دلائی جاتی ہے تو بےساختہ کہتے ہیں "بڑا ہو کر سب کچھ سیکھ لے گا ابھی سے اس کے پیچھے پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے"

اور اسی طرح جب ان سے کہا جاتا ہے کہ بچوں کے سامنے لڑنے جھگڑنے, گالی گلوج کرنے، یا کسی بھی طرح کی فحش کلامی سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ بچوں کے اخلاق پر برا اثر نہ ہو تو ان کا جواب ہوتا ہے "بچوں کا ذہن و شعور اس قابل نہیں کہ وہ ہماری بری باتوں سے کچھ اثر لے سکیں"
گویا بچے ان کے نزدیک پتھروں کے مجسمہ ہوا کرتے ہیں جو زندگی اور فہم و ادراک سے یکسر خالی ہوتے ہیں...

اسی صورتحال کو دیکھتے ہوتے ہم نے اپنے گاؤں میں بچوں کے لئے
'children's creativity competition'
 کے نام سے اسی سال دو روزہ پروگرام کروایا پروگرام سے پہلے بچوں کو ٹرینڈ کیا گیا، پھر بچوں نے مقررہ ایام میں ایک بڑے سے اسٹیج پر اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا ایسا جوہر دکھایا جس سے ناظرین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اور والدین اپنے بچوں کی ذہانت و صلاحیت کودیکھ کر حیرت واستعجاب میں پڑگئے، اس وقت انہیں احساس ہوا کہ بچوں کو اچھا ماحول اور اچھی تربیت کے ساتھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے تو یہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔..

قارئین! کھیت میں صرف بیچ ڈالنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی کرنا کسان ہی کی اہم فریضہ میں داخل ہے،اور جس قدر عمدہ دیکھ ریکھ کیا جائے گا فصل بھی اسی کے اعتبار سے اچھا ہوگا..

بلاشبہ بچے وہ بیج ہیں جن کے اندر بے پناہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور اساتذہ کسان کی طرح ان کی دیکھ بھال کریں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھاریں،اور مستقبل میں بہترین فصل کاٹنے کی تیاری ابھی سے کریں...

Post a Comment

0 Comments